اُس ہوا دی گل سنو
جو پنچھیاں وانگوں اُڈدی اے
تے بطخاں وانگوں تر دی اے
جھیل درختاں جھاڑیاں توں
اُچیاں نیویاں پہاڑیاں چوں
لنگھ کے سب جدائیاں توں
ہور طراں کجھ لگدی اے
شکیل احمد طاہری
نظم پہلی ھی نظر میں دل کو بھا گئی تھی ۔ معصوم ، پیاری اور ہنس مکھ۔ ! ہنس مکھ پر شائید آپ ہنسیں مگر میری پسند کی درجہ بندی کچھ اسی طرح ھو تی ھے۔ میں پہلے بھی یہ بات کہہ چکی ھوں کہ میں پنجاب سے ھوں۔ میرے بابا کی دو بار ساھیوال میں پوسٹنگ ھوئی تھی اور میں وہیں پیدا ھوئی تھی ۔ ابھی شہر کا نام بدلا نہیں تھا۔ اسے منٹگمری کہتے تھا اور میری ڈاکٹر کا نام بھی الزبتھ تھا جس کی” آنکھیں بہار کے آسمان کی طرح نیلی تھیں “۔۔۔ میری بی جی کی پکی سہیلی تھی اور بی جی اکثر اس کو یاد کیا کرتی تھیں ۔
بہرحال بات کہہ یہ رہی تھی نظم مجھے بہت پیاری لگی اور چاہا اپنی دوسری کاوشوں کی طرح اس کو بھی انگریزی زبان میں لا کر دیکھوں ؛ کوئی مشکل تو ھو نی نہیں چاہیئے اور ھمیشہ کی طرح اس کو ذہن میں اتارنے اور اپنا بنانے کے لئے بار بار پڑھنا شروع کیا۔ اور پھر رک گئی۔ جو میں سمجھ رہی تھی یہ وہ نہیں ھے ۔ گہری ھے ، پرت در پرت کھو لیں تو کہیں دور اپنے اندر اپنی روح سنبھالے بیٹھی ھے۔ سارا راز ۔۔۔” لنگھ کے سب جدائیاں توں
ہور طراں کُج لگدی اے – میں پوشیدہ ملا ۔
تو جھیلیں درخت، پہاڑ ، جھاڑیاں اور پہاڑیاں سب رکاوٹیں تھیں جدائیاں تھیں اور ان سب کے پار اُ ترنا پا لینے کی معراج ! ۔ میں نے اپنا کلپ بورڈ اور قلم ایک طرف رکھ دیئے نہیں معلوم آنکھیں کب بھیگنا شروع ہوئی تھیں ۔ کچھ دیر برسات ہوئی پھر تھم گئی۔
میں نہیں جانتی میں شاعر کے ذہن تک رسائی پا سکی، ان کی سوچ اور خیالات اور میری سوچ اور خیالات میں کوئی ہم آہنگی ہے یا نہیں ۔
میں اپنی رسائی کی بات کر سکتی ہوں اور بس
نظم کا پہلا مصرعہ میرے لیئے آسان نہیں ۔ ہر دفعہ ایک نیا روپ دِکھاتا ھے
“ اُس ہوا دی گل سنو”
اس ہوا کی بات سنو جو – زرا سنو تو اس ہوا کی بات جو – میں بتاتا ہوں اس ہوا کی بات جو
اور ہر ایک کے ساتھ نظم کا مفہوم اور ہو جاتا ہے ۔ یہ میں ، میری ، پنجابی زبان کی محدود سمجھ بوجھ کی بات کر رہی ہوں جس کی جانکاری نہ ہوتے ہوئے بھی یہ نظمیں مجھ سے کچھ کہتی ہیں اور میں سنتی ہوں ۔
میری پہلی ملا قات
Follow the wind, and listen, what it is telling you about –
the one that has the wings like a bird in flight –
that meets the water gliding like a swan,
that crosses lakes, tall trees or low shrubs and does not stop
that does not even gets intimidated by mountains or hillocks coming in the way
leaving all separations behind whispers – merge
in that moment of surrender, it primes to something else!
میری دوسری ملاقات
Pay attention to the wind that is telling you something
coming to you, gliding ever so smoothly on the air, like a bird in flight
or like a swan swimming in a lake – swimming serenely, confident and free; just see –
Sometimes the lakes, tall trees or shrubs, hinder the way
but with perfect vigor, it crosses all – leaving behind – conquering all
Not even intimidated by the mountains high, or hillocks low;
blocking its onward call.
Leaving all separations behind, it whispers – merge
That moment of surrender, it primes in it’s glory – all burnished .
تیسری ملاقات
Just listen about the wind
that glides on the air,
like a bird in flight.
or like a swan,
that swims in a lake, so serene, so free.
with perfect vigor, that crosses the trees
lakes and shrubs too.
come mountains high or hillocks low
nothing deters or makes it slow
going through those shades of separation,
like a Pheonix it rises again – all burnished, all new, just see!
ایک چوتھی ملاقات بھی ہے مگر وہ ابھی ادھوری ھے اور شائید تکمیل کی منتظر ھی رہے گی ۔