ساعتیں وِصال کی

جانے کب پلٹ گئیں

دور جاتی آہٹیں

ہوا میں دور تک گئیں

خوب تر تھی خامشی

چاہتوں کے باب میں

اُس کا ساتھ ،ساتھ تھا

روح کے مِلاپ میں

چُپ کو اوڑھ کے شب بھر

انتطار کرتی تھی

رات کے سفینے میں

بادلوں پہ چلتی تھی

آرزو کی سنگت کیا

خواہشوں کی وحشت کیا

کچھ ادھورے خوابوں کے

خواب د یکھنے میں کیا

اک کتاب چہرہ تھا

رحل دونوں ہاتھوں کی

لو اگر لرزتی ہو

کون کس کو پڑھتا ھے؟

3 مارچ 2013

چھ بجکر تین منٹ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

For security, use of Google's reCAPTCHA service is required which is subject to the Google Privacy Policy and Terms of Use.